Talkshows4u

Find the Power of Discussion with TalkShows4u

GNN Talk ShowsLive With Dr. Shahid MasoodTalk ShowsTalk Shows Alerts

Live with Dr. Shahid Masood – 24th Feb 2024 – Pakistani Talk Shows

Live with Dr. Shahid Masood – 24th Feb 2024 – Pakistani Talk Shows

انٹرو

ڈاکٹر شاہد مسعود کا شمار پاکستان کے ممتاز صحافیوں میں ہوتا ہے۔آپ ایک کالم نگار اورایک سیاسی  ٹالک شو  کی میزبانی کرتے ہیں جس کا نام لائیو ود ڈاکٹر شاہد مسعود ہے۔آپ اپنی  اے آر وائی نیوز پر چلنے والی مشہور سیریز ‘اینڈ آف ٹائم’سے جانے جاتے ہیں۔آپ کا پروگرام  پاکستان کے چند مشہور سیاسی ٹالک شوز میں سے ایک ہے۔آپ اپنی دور بین نگاہ کے ساتھ بین الاقوامی سیاست  پر ماہرانہ تجزیہ رکھتے ہیں۔آج ہم لائیو ود ڈاکٹر شاہد مسعود کی 24فروری 2024 کے پروگرام پر ایک نظر ڈالیں گے۔

قومی اسمبلی میں نشستوں کی صورتحال پر تجزیہ

خاتون اینکر نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے پاکستان میں الیکشن کے بعد بدلتی صورتحال اور سندھ اسمبلی میں ہونے والے اجلاس کی بابت سوال کیا کہ آج سندھ اسمبلی میں خوب ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔اس پر ڈاکٹرصاحب کا کہنا تھا کہ یہ سلسلہ اب چلتا رہے گا،حکومت سازی کے عمل میں شور شرابہ اور احتجاج جاری رہے گا۔اس صورتحال میں ایک دو دلچسپ باتیں مدنظر رکھنے کے لائق ہیں۔ایک یہ کہ مسلم لیگ نواز کی اب تک 108 سیٹیں کنفرم ہوچکی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی میں تحریک انصاف کا کوئی آزاد رکن نہیں گیا جتنے بھی رہنما گئے وہ ن لیگ میں گئے۔یوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو سادہ اکثریت تو مل چکی ہے،لیکن  انہیں اب ایم کیوایم کی ضرورت نہیں رہی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم کیوایم کتنی وزارتیں لے پاتی ہے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے آزاد رہنما جو کہ اب سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئےہیں،ان دونوں جماعتوں کی کل ملا کر صرف 81 سیٹیں ہیں۔تاحال انہیں مخصوص نشستوں میں سے کوئی بھی دینے کا فیصلہ نہیں ہوا۔اب دیکھنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس پر کیا پیشرفت ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر آزاد اراکین جن کی تعداد 9 ہے وہ ن لیگ میں نہ جاتے تو   معاملہ کچھ اور ہوتا۔ان 9اراکین کے جانے کے بعد بھی دونوں  جماعتوں کے درمیان حاصل کی گئی سیٹوں میں  فرق کم رہ گیا ہے۔اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ اگر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں میں حصہ مل  جاتا ہے تو یہ فرق بالکل قریب آجائے گا۔ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ یہ بہت عجب معاملہ ہے۔الیکشن کے بعد جو نظام بن چکا ہے اس کو چلتا رہنا چاہئے لیکن اس کی خراش تراش ہوتی رہے گی۔آجکل جو اتحاد بنتے ہیں وہ بہت قلیل المدت ہوتے ہیں۔

الیکشن کے بعد معاشی حالات کس طرح کے ہونے چاہئیں؟

پاکستان کی معیشت کے بارہ میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی حالات کے خرابی کے باوجود پاکستان کے معاشی معاملات پر اس کا اثر نہیں ہونا چاہئے۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کسی وقت تحریک انصاف کی تعداد قومی اسمبلی میں زیادہ ہوجائے۔لیکن معاشی چارٹر پر کوئی فرق نہیں آنا چاہئے اور نہ ہی  ملک میں بدامنی ہونی چاہئے۔شاہراہیں کھلی ہوں اور غریب عوام پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے۔آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جہاں پر ختم ہوئے تھے وہیں سے جاری رکھے جانے چاہئیں۔الیکشن کے بعد ملک میں جاری احتجاج کے ضمن میں میری اکابرین جماعت سے گزارش ہے کہ دھرنوں میں ،احتجاج میں کچھ ایسے راستے نکالے جائیں جس میں عوام کو مشکلات پیش نہ آئیں۔اور ایسا طریقہ نکالیں جس کا کچھ اثر بھی ہو۔

ان کامزید کہنا تھا کہ میرے خیال میں اس بار شہباز شریف صاحب کے لئے  حکومت چلانے کے لئے حالات کچھ مختلف ہوں گے۔وہ اس طرح  کیونکہ پچھلی حکومت میں جو کہ ڈیڑھ سال رہی،میں 16جماعتوں کا اتحاد تھا۔اب کی بار شہباز شریف صاحب کو دوجماعتوں کو سنبھالنا ہوگا،ایک چھوٹی سی مناسب کابینہ تشکیل دی جائے گی۔یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ  پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ بنے گی یا نہیں لیکن ان میں بھی اچھی قیادت موجود ہے۔ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف یعنی تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کو بھی ہلکا نہیں لینا چاہئے۔سیٹوں کی تعداد میں بہت تھوڑا فرق ہے۔

Watch More Talk Shows Alerts Here

Watch More Latest News Here

Dr. Shahid Masood, M. Malick & others’ views on Imran Khan’s possible letter to IMF

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *